ننگا سچ---(تحریر:میاں محمد ندیم) Group Editor www.urdupoint.com
”اللہ دے ناں ملک بنایا کی کردیتا اس ملک دا حال“ ارشد شریف جاتے جاتے سارے نظام کو ننگا کرگیا اس دستاویزی فلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس بے دردی سے اشرافیہ نے ہمیں لوٹا اور آج ہم سے چادر اور چار دیواری کا تحفظ تک چھین لیا گیا ہے. حکم ہے ہر اس آوازکو ختم کردو جو حکمران اشرافیہ پر تنقید کرئے ارشد شریف نے بیماری کی جڑکو پکڑا تھا”کیوں نئیں سب انسان برابر کیوں ہے گا انصاف داکال“ انصاف اور انسان برابر ہونگے تو ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے. اسلام نے بھی مساوات کا درس دیا مغربی نظام جمہوریت علاج سے اس ”مریض“ کا علاج ممکن نہیں کیونکہ ہم 75سالوں سے اس طریقہ علاج کواستعمال کررہے ہیں اگر ہم علاج میں سنجیدہ ہیں تو نبی کریم ﷺ کا خطبہ ححج الوادع اٹھا کر نافذکردیں. مغرب نے سبق سیکھ لیا اور انصاف قائم کردیا جبکہ ہم نے ہر شعبے میں اشرافیہ قائم کردی1774کے ”کمپنی سرکار“کے فارمولے کے مطابق کہ اس کے بغیر شہریوں کو جبراور خوف وہراس پھیلا کر بھیڑ‘بکریوں کی طرح ہانکا نہیں جاسکتاہر شعبہ زندگی میں قائم اشرافیہ اپنی عیاشیوں کو قائم رکھنے کے لیے ظلم کا آلہ بنتی ہے اور اپنے سے نیچے والوں کو دبا کر رکھتی ہے غلاموں کی طرح . آدھا ملک گنوا کر کر بھی ہمیں عقل نہیں آئی ”پاکستان اسلام کے نام پر بنا یہ ہمیشہ قائم رہے گا“کا چورن بیچنے والوں سے سوال ہے کہ1971میں ہمارا مشرقی بازو کیسے ٹوٹ گیا‘پھر ہمیشہ قائم تو سوہنے رب نے رہنا ہے چیزنے ایک دن فنا ہونا ہے پچہترسالوں میں ہم نے کرپشن کے علاوہ کسی شعبے میں ترقی نہیں کی ‘ہم دنیا کا ایسا عجوبہ ہیں جہاں پیسے دے کرآپ ایک اندھے کا ڈرائیونگ لائسنس بنو ا سکتے ہیں‘ایک چٹے ان پڑھ کے لیے ایم بی بی ایس کی ڈگری خرید سکتے ہیں(مشرف دور میں ہم نے معجزہ دیکھا کہ کس طرح حکمران اشرافیہ کے خاندانوں کے ان پڑھ راتوں رات گریجویٹ بنے)باقی ملک کے اعلی ترین ایوان سینیٹ کے انتخابات میں جوضمیر کی منڈیاں لگتی ہیں ان سے پاکستان کا بچہ بچہ آگاہ ہے. برسراقتدار پی ڈی ایم حکومت نے وہ کارنامے انجام دیئے ہیں جو کوئی آمر بھی نہیں دے سکا‘سب سے پہلے آزادی اظہار رائے پر پھر انظام عدل پر اور آخرکار آئین پر حملہ کیا گیا اس وقت دیکھا جائے عملا ملک میں کوئی آئین نہیں پنجاب اور کے پی میں نوے دن بعد انتخابات آئین کا تقاضہ تھے اس بات کو حکمران اتحاد کے آئینی وقانونی ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں ملک کی اعلی ترین عدالت حکم دیتی ہے تو اس کے سامنے اسٹیج سجا کر ججوں کودھمکیاں دی گئیں‘تمام اداروں نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کردیا مگر کمال ہے کہ جج فیصلہ دینے کی بجائے مشورے دے رہے ہیں. کیا ججوں کا کام مشورے دینا ہے؟ہرگزنہیں ججوں کا کام فیصلہ دینا ہے اور فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنا مگر آج عام شہری کی کسی عدالت میں شنوائی نہیں چیف جسٹس لگتا ہے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کا انتظار کررہے ہیں خاموش تماشائی بن کر‘میرے جیسے کسی قلم مزدور سے کوئی معمولی سی ”گستاخی“ ہوجائے تو توہین عدالت مگر اشرافیہ کا معاملہ ہوتو قبرستان سی خاموشی‘یہ کہاں کا انصاف ہے چیف صاحب؟. اشرافیہ پر اگر آپ کا زور نہیں چلتا تو کم ازکم اپنی ماتحت عدلیہ کو ہی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرجائیں میرے خیال میں اس کے لیے تو آپ پر کوئی دباﺅ نہیں؟کوئی سرکاری ملازم ایمانداری سے نوکری کرنا چاہتا ہے تو یہ تقریبا ناممکن ہے ہمارے ایک دوست کے برابرنسبتی لیسکو میں ایس ڈی او بھرتی ہوگئے مگر تین ماہ بعد ہی نوکری سے استعفی دیا اور کینیڈا سدھار گئے‘مستعفی ہونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے میں رشوت لیتا نہیں تھا ”اوپر“والے مہینہ مانگتے تھے اس لیے نوکری پر چار حرف بھیجے اور کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کردی. ہمارے ”خود ساختہ دانشور“ تنقید کرتے ہیں پاکستان سے ڈگری حاصل کرتے ہیں اور پھر کسی مغربی ملک جابستے ہیں تو بھائی ایمانداری سے نوکری کرنے کا ماحول فراہم کردیں تو وہ ناں جائیں. حال ہی میں لاہور میں ریونیو کے ایک سب رجسٹرار سے واسط پڑا تو پتہ چلا اسسٹنٹ کمشنر صاحب اور سب رجسٹرار تو دور ان کا ریڈرکتنا طاقتور ہے ‘ایک دوست نے جملہ کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا کہ پاکستان میں تو سرکاری محکموں کی دیواریں بھی پیسے مانگتی ہیں اس کیس میں عملا دیکھ بھی لیارجسٹرارصاحب نے تین گھنٹے”مسلمانوں کے زوال“کے اسباب پر لیکچر دیا اور آخر کارمنیرنیازی صاحب کے بقول وہ اپنی ”وردی“اتار اپنی مکروہ شکل میں آگئے ایک صوبائی وزیرکی سفارش سے ہمیں اتنی رعایت ملی کہ پانچ ہزار میں ہی کام ہوگیا . تجرے سے معلوم ہوا کہ اے سی صاحب کی عدالت ہو یا سب رجسٹرار کی سائل کی جیبیں آٹھ ‘دس ہونی چاہیں‘وہ بھی بھری ہوئی ایک زمانہ ہوتا تھا جب تھوڑی شرم حیا تھی رشوت چھپ کر لی جاتی تھی اب رشوت نہ لینے والے چھپ کر بیٹھتے ہیں‘لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں مریض کے لواحقین وہیل چیئریا اسٹریچر پانچ سو ‘ہزار دیئے بغیرحاصل نہیں کرسکتے اس پر ایک پورا کالم لکھا مگر یہ دھندا آج بھی جاری ہے کیونکہ جنہوں نے ایکشن لینا ہے ان کے اپنے ہاتھ کرپشن سے لتھڑے ہیں‘دفاترمیں‘ملک ”مافیاز“کے حوالے ہے ملک میں پہلے گندم‘چینی ‘چاول یا کسی بھی جنس کو برآمدکرنے کی اجازت دی جاتی ہے اس کے بعد جب ملک میں اس جنس کی کمی واقع ہوتی ہے تو درآمد کرنے کا حکم صادر کردیا جاتا ہے ”مافیاز“دونوں اطراف سے اربوں کا منافع کما کر سائید پر ہوجا تے ہیں اس سارے کھیل میں افسرشاہی اور حکمران مل کر مال بنائیں گے سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے‘پچھلے دنوں چینی‘گندم‘آٹے اور ڈالروں کی افغانستان اور ایران اسمگلنگ کی خبریں چھائی رہیں کسی اینکریا ”ماہر“کو سوال اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی کہ باڈرسیکورٹی پر ماموراہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر یہ سب کیسے ممکن ہے؟ایک عام شہری دس کلو آٹے کا تھیلا باڈرسے افغانستان یا ایران نہیں لے جاسکتا تو کنٹینرزبارڈ سیکورٹی پر مامور لوگوں کی نظروں میں آئے بغیرکیسے گزرجاتے ہیں؟. سیاست دان کی تعریف کہیں پڑھی تھی کہ بحران پیدا کرنے اور پھر اس کا حل نکالنے والے کو سیاست دان کہتے ہیں‘نکے میاں صاحب کی اچھی خاصی دھاک بیٹھی تھی کہ کمال کے ”منتظم“ہیں مگر وزیراعظم بنے تو پول کھل گئی اور یہ بھرم بھی جاتا رہا حکومتی رٹ کا یہ عالم ہے کہ آج تک مارکیٹ میں ”پیناڈول“ دستیاب نہیں کرواسکی ہماری تیرہ تجربہ کار جماعتوں پر مشتمل حکومت . اتحادی حکومت نے اب تک قانون سازی کے ریکارڈ توڑدیئے ہیں مگر ایک بھی قانون ایسا نہیں منظور ہوا جس سے عام شہری کو ریلیف ملتا ہو‘عام پاکستانی کا بھلا ہوتا ہو‘تمام ترقانون سازی حکومت اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کے خلاف مقدمات ختم کروانے کے لیے ہے ‘جج مٹی کے مادھو بنے بیٹھے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں کہ وہ بھی اسٹیٹس کو کا حصہ ہیں یہاں تک کہ لاہور میں وکلاءکی ایک تقریب میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سنیئرقانون دان اور سابق گورنرپنجاب سردار لطیف کھوسہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ایسا ظلم اور جبر تو جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہوا ‘عالمی کمپنیاں پاکستان چھوڑکرجارہی ہے”الجزیرہ “کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے پیسے ملنے کی امید ختم ہوتی جارہی ہے توایسے حالات میں انارکی نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟. اسحاق ڈار کی ساری ”تجربہ کاری‘اور اہلیت “کا پول بھی کھل چکا ہے کوئی ہم جیسے تنخواہ داروں سے پوچھے جو یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ ”اے میرے دیس کے مفتیوں کوئی ایسا فتوی دو کہ خودکشی حلال ہوجائے“روز‘روزکے مرنے سے ایک بار مرنا بہتر ہے ‘ایمانداری کے ساتھ تنخواہ کے اندر گزربسرکرنی ہے تو ہجرت فرض ہوگئی ہے ہاں اگر ضمیرکو مار کر زندہ لاشوں میں شمار ہوجائیں تو پاکستان سے اچھا ملک کونسا ہوگا کہ پیسے سے آپ سب کچھ خرید سکتے ہیں ‘وہ سرکاری افسرہویا انصاف‘بندر کا تماشا لگا ہے ہجوم دیکھ رہا ‘بندرناچ رہے ہیں‘مداری ڈگڈی بجاتے‘بندر ناچنے لگتے ہیں‘مداریوں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر تماش بین اور بندر وہی ہیں پچہترسالوں سے
نوٹ:دوستوں کے مشورے سے بلاگزمیں اپنی کتاب”عہدسازمسلمان شخصیات“کو سلسلہ وار شائع کیا جائے گا تاکہ مغرب سے مرغوب ہماری نوجوان نسل اور پڑھے لکھے لوگوں کو معلوم ہوسکے کی مسلمان علمی طور پر ”بانجھ“نہیں بلکہ اہل مغرب نے مسلمانوں کی تحقیق ‘تجربات اور علم سے استفادہ حاصل کیا ہے چاہے وہ سائنس کا میدان ہو‘فلسفہ‘ریاضی‘میڈیکل سائنس‘میڈیسن‘سرجری‘فلکیات‘فزکس‘کمیسٹری ‘بیالوجی علم کا کوئی بھی شعبہ ہو مسلمانوں نے جتنا کام کیا ہے اہل مغرب کی جدید سائنسی ترقی اسی کی مرہون منت ہے .
Comments
Post a Comment