لاہورکا نوحہ---(تحریر:میاں محمد ندیم) Group Editor www.urdupoint.com

 

 باغوں اور میلوں کے شہر لاہور کے بارے میں کہا جاتاتھا ” ست دن تے اٹھ میلے کم کر لیے کہیڑے ویلے “یعنی اس شہر میں آٹھ میلے لگتے ہیں جبکہ ہفتے میں دن ہیں سات اب آپ بتائیں کہ میلے دیکھیں تو کام کس وقت کریں انیس سو اسی کی دہائی کے آخرمیں چاچا جی دہلی دروازے رہا کرتے تھے توہم (اس وقت کے لاہور کے نواحی گاﺅں)ملتان روڈکھاڑک سے بھاٹی چوک اور وہاں سے تانگے پر دہلی دروازے جایا کرتے تھے اسی طرح ایک عزیزپیرمکی ”گورا قبرستان“کے قریب رہتے تھے تو اس علاقے میں آنا جانا رہتا تھا -دہلی گیٹ سے مینار پاکستان کی جانب جاتے ہوئے پرانے شہر کی فیصل نہ صرف کسی حد تک باقی تھی بلکہ اس کے درمیان میں کئی کلومیٹرتک گلاب کے پھولوں کا ایک باغ ہوتا تھا وہ بھی روای کنارے نیشنل پارک کی طرح”ترقی “کی نذرہوگیا شہرکو کنکریٹ کا جنگل بنانے کا کام بلاشبہ شریف بردران کے پنجاب کے اقتدار کے دوران شروع ہوا جس نے پھر رکنے کا نام نہیں لیا حال ہی میں وزیراعظم صاحب نے میرے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ”سبزہ زارجمنیزیم “کا افتتاح کیا جوکہ بچیوں کے کالج کی جگہ کا اسٹیٹس تبدیل کرکے بنایا گیا ہے-اس سے ہمارے حکمرانوں کی ذہنیت اور ترجیحات کا علم ہوتا ہے میرے سمیت اہل علاقہ نے درجنوں خطوط لکھے مگر ماسٹرپلان میں بچیوں کے مخصوص جگہ کا اسٹیٹس تبدیل کروانے والے طاقتور نکلے رہی عوامی رائے تو وہ جائے گھذے میں تعلیم ہماری ترجیح صرف نعروں اور باتوں کی حدتک ہی ہے اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے درجنوں خطوط کے باوجود خاموشی رکھی میں آج بھی پورے یقین سے کہتا ہوں کہ عدالت ایل ڈے کا ریکارڈ منگوائے میرے پاس جواب کی کاپی موجود ہے جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہے تو یہ بچیوں کے کالج کی ہی جگہ مگر اس کا اسٹیٹس ”ان “وجوہات کی بنا پر تبدیل کیا گیا ہے-بات کہاں سے کہاں جانکلی کہ انیس سو اسی کی دہائی اور آج کے لاہور میں زمین آسمان کا فرق آیا‘اربنائزیشن کی ذمہ داری بھی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کہ چھوٹے شہروں میں سہولیات کیوں نہیں فراہم کی گئیں پھر لاہور کے گرد ونواح کے زمینوں سے ڈالروں میں اربوں پتی کون بنے؟یہ اب کوئی رازنہیں رہا شہر کا حسن تباہ ہوگیا ”تاجروں“کو اس سے کوئی غرض نہیں پہلے بھی ایک تحریرمیں عرض کیا تھا کہ پیرس تو کیا لاہور کا بیڑا غرق ایسا کیا کہ پانی ‘بجلی ‘گیس سمیت بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ‘سرکاری تعلیمی اداروں میں سیٹس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں اور نوکری پیشہ شہریوں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں ‘لاہور کو پیرس بنانے کا نعرہ موجودہ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی وزارت اعلی کے دور میں لگایا تھا تو اس وقت ناچیزنے عرض کیا تھا کہ حضور والا پیرس کو چھوڑیں اہلیان لاہور کو ان کا شہر ہی واپس کردیں-ٹاہلی (شیشم)کے درختوں کے بارے میں کہا گیا کہ کوئی بیماری آئی جو پورے ملک سے ٹاہلیوں کو چاٹ گئی مگر حیرت انگیزطور پر باغ جناح ‘لاہور اور لاہور کے پرانے قبرستانوں میں موجود ٹاہلیوں کے درخت ”بیماری“سے محفوظ رہے کیونکہ ”لینڈمافیا“کا ان جگہوں پر کوئی بس نہیں چلا کہ فساد کھڑا ہونے کا خدشہ تھا ورنہ سرکاری مولویوں سے مردے جلانے کا فتوے لے کر قبرستانوں پر بھی رہائشی سکیمیں بنادی جاتیں مگر مسلہ عوام کا تھا کہ انہوں نے کسی صورت ”سرکاری فتوی“ کو نہیں ماننا تھا لاہور کے بارے میں ہمارے ایک مرحوم دوست اکثر آہ بھرکے کہا کرتے تھے کہ” بدنصیب شہر ترقی کی نذرہوگیا“ بھارت کی آبادی ہم سے زیادہ ہے مگر گوگل سرچ کریں تو ان کے شہروں میں ابھی تک درختوں کو جو بہتات نظرآتی ہے وہ قابل رشک ہے ممبئی کے بارے میں ایک دستاویزی فلم میں بتایا گیا کہ صدیوں سے کھڑے کسی درخت کو نہیں چھڑا گیا حالانکہ وہاں کا ”لینڈمافیا“ہمارے لینڈمافیا سے زیادہ تگڑا ہے مگر قانون کا احترام کسی حد تک موجود ہے -رشوت وہاں بھی ہے مگر ہماری طرح اس نے ساری حدیں ابھی تک نہیں پھلانگیں‘ہم تو رشوت ستانی اور بیڈگورنس کے معاملے میں افریقی ممالک سے گئے گزرے ہوگئے ہیں کہ ہماری طرح کی اندھیر نگری ‘چوپٹ راج کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی کیونکہ ہمارے ہاں تو قبر کی جگہ تک کے حصول کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟-لاہور کا نوحہ جب تک ہم زندہ ہیں لکھتے رہیں گے ‘یہاں ان کی حکمرانیاں اور جاہ وجال ہے مگر حشرکے میدان میں یہ کیا جواب دیں گے؟تو ہم نے معاملہ حشرتک اٹھا رکھا ہے کہ اس عدالت میں ان کے گریبان پکڑیں گے جہاں نہ ان کی دنیاوی حیثیت‘ اثرورسوخ اور مال وزر کسی کام کے نہیں ہونگے کیا فقیر کیا بادشاہ موت تو آنی ہے مگر ان کے کرتوتوں سے لگتا ہے کہ ان کا آخرت یا وہاں جواب دہی پر ایمان نہیں اور جس کا آخرت پر ایمان نہیں اس پر ہم تو کچھ نہیں کہیں گے یہ مفتیان کرام کا کام ہے کہ وہ بتائیں کے اس کا دین باقی رہا یا نہیں؟ 


Comments

  1. Wonderful expose of the fateful destruction of OLD LAHORE on the name of so called urbanization.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Why is Pakistan the fifth most vulnerable country when it comes to climate change?----by Mian Muhammad Nadeem group editor urdupoint dot com

Climate Change and our Responsibilities. By: Mian Muhammad Nadeem, Editor www.urdupoint.com

تنہائیوں کے سفر (تحریر:میاں محمد ندیم) گروپ ایڈیٹراردوپوائنٹ ڈاٹ کوم