Posts

Climate Change and our Responsibilities. By: Mian Muhammad Nadeem, Editor www.urdupoint.com

Image
  پاکستان اوربھارت میں اس سال موسم گرما قیامت ڈھا رہا ہے اور خطے میں اوسط درجہ حرارت میں 5سے10ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جوماہرین کے نزدیک انتہائی تشویشنا ک ہے دونوں ہمسایہ ممالک کے بڑے شہر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے یہ صورتحال دور دراز صحرائی علاقوںمیں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں ہے. اس طرح کی گرمی میں کچھ خطرات تو ایسے ہیں جن کا لوگوں کو ٹھیک طرح سے علم بھی نہیں شدید گرمی سے بھارتی ریاست بہار میں 14 جبکہ اڑیسہ میں 4 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ دارلحکومت دہلی میں گرمی کی شدت سے پرندوں اور جانوروں کے مرنے کی بھی اطلاعات ہیں آخرہمارا خط بجلی کی سی تیزی کے ساتھ آگ کا گولہ کیوں بنتا جارہا ہے؟ اس کے عوامل میں پچھلے 30/40سالوں میں شہروں کا بغیرمنصوبہ بندی کے پھیلاﺅ ‘ جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی‘شہروں میں گاڑیوں‘ایئرکنڈنشنگ اور دیگر مشینوں سے پیدا ہونے والی گیسوں اور حرارت کے علاوہ عمارتوں کے طرزتعمیر میں بڑے پیمانے پر کنکریٹ کا استعمال درجہ حرارت شامل ہیں . اس کے علاوہ سمندروں کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے...

تنہائیوں کے سفر....آخری حصہ (تحریر:میاں محمد ندیم) گروپ ایڈیٹراردوپوائنٹ ڈاٹ کوم

Image
”تنہایوں کے سفر“ میں گفتگو جاپان سے شروع ہوتی مغرب تک گئی مگر پاکستان اور ہمسایہ ممالک پر بات نہیں ہوسکی انیس سو نوئے کی دہائی میں سیموئل پی ہنٹنگٹن کی کتاب ”کلیش آف سویلائزیشنز“نے بڑی شہرت پائی اگرچہ یہ کتاب سرد جنگ اور نیوورلڈ آڈر کا احاطہ کرتی ہے مگر سیموئل نے ”تہذیبوں کی جنگ“میں معاشی پہلو پر کھل کربات کی- جمی کارٹر کے عہد صدارت میں قومی سلامتی کونسل کے سربراہ رہنے والے سیموئل پی ہنٹنگٹن امریکا کے مختلف تھنک ٹینکس ‘مشاورتی کمیٹیوں اور معاشی اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے ان کی درجنوں کتب میں سے زیادہ تر سیاسی‘معاشی اورقومی سلامتی جیسے موضوعات پر ہیں -Clash of Civilizations میں کئی مضامین بھی شامل ہیں جو سیموئل نے اس سے متعلقہ موضوعات پر لکھے تھے‘ سیموئل نے معاشی طاقت کے مغرب سے مشرق کی جانب جھکاﺅ کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ مستقبل میں مشرق دنیا کا معاشی مرکز بنے گا اور شاید اسی کی پیش بندی کے طور پر امریکا نے مشرق کو عدم استحکام کا شکار رکھنے کے لیے مسلسل کوئی نہ کوئی محاذ خطے میں کھولے رکھا-امریکا نے چین سمیت مشرق کی ابھرتی طاقتوں اور ترقی پذیرممالک کے لیے ڈبلیوٹی او جیسی قبر...

تنہائیوں کے سفر (تحریر:میاں محمد ندیم) گروپ ایڈیٹراردوپوائنٹ ڈاٹ کوم

Image
  دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹیکنالوجی میں سب سے برق رفتاری سے ترقی کرنے والی اقوام میں جاپانی سرفہرست تھے الیکٹرانکس، گاڑیاں ‘ ٹیکنالوجی‘انڈسٹری ‘کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں جاپانیوں نے اپنی قابلیت کا لوہا نہیں منوایا‘ بلاشبہ دنیا کی مارکیٹ پر جاپان نے راج کیا ‘ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ مستقبل قریب میں ان کے مٹنے کا کوئی امکان نظرنہیں آتا- "میڈ ان جاپان" کی مہر آج بھی بکتی ہے مگر اس دوڑمیں جاپان نے ایسی غلطی کی جس کے مضمرات ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے اٹیم بم سے کہیں بڑھ کرتھے جاپان نے انسانوں پر انویسٹ نہیں کیا بلکہ انہیں مشینوں میں ڈھال دیا-انسانوں اور مشینوں کے درمیان کا فرق مٹ گیا‘بھاری ٹیسکوں کے بوجھ تلے دبے جاپانی آج کام کی جگہ پر چند گھنٹے نیند لینے کے بعد پھر سے کام میں لگ جاتے ہیں-نوجوان نسل میں شادی‘گھربسانے‘خاندان سے دور ہوتے ہوتے جذبات اور احساسات سے عاری ہوتی چلی گئی جب حکومت کو ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی -حال ہی میں کچھ  ایسے  تحقیقی مقالے سامنے آئے ہیں جن میں سفارش کی گئی ہے کہ انسان  سے  دن میں پانچ  یا  چھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لی...

ریلیف یا خانہ جنگی

Image
مرکزی حکومت کے ملک بھر میں اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لینے والے محکمے وفاقی ادارۂ شماریات کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.54 فیصد اضافہ ہوا اور 20 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اپنی جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ میں ادارۂ شماریات نے یہ بتایا کہ جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں آٹا، چاول، کوکنگ آئل، تازہ دودھ، دہی، چینی، گڑ، دال مسور، چاول، ایل پی جی، انڈے، دال ماش، آلو اور دال مونگ شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر اشیاء بنیادی ضرورت کی ہیں اور ہر گھر میں روزانہ استعمال ہوتی ہیں، لہٰذا ان کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو روزمرہ اخراجات کی جتنی رقم کی ضرورت ایک ہفتہ پہلے تھی رواں ہفتے کے دوران اس میں اضافہ ہوا لیکن آمدنی وہیں کھڑی رہی جس کی وجہ سے اس کا معاشی بوجھ پہلے کی نسبت بڑھ گیا۔ بجلی کے بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے جو صورتحال پیدا ہوئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اس پر عوام کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بات کو واضح تر کرتا جارہا ہے کہ اگر حکومت نے عام آدمی کو فوری طور...

بھانڈے قلعی کرالو تحریر:میاں محمد ندیم

Image
اسی کی دہائی کے آغازکے بہت سارے کردار ختم ہوگئے ہیں ہم آخری نسل تھے جس نے ”کپی ٹاکی“پر فلمیں ‘ریچھ کے تماشے‘گندم‘آٹا یا دیگر اناج دے کرقلفیاں کھائیں آج کی نسل ان سب کا تصور بھی نہیں کرسکتی‘پھر ایک آواز”بھانڈے قلعی کرالو“گونجتی تو ہلچل مچ جاتی “قلعی گر“محلے کے سب سے بڑے صحن والے گھر میں اپنی بھٹی لگاتے اور محلے بھر کے پیتل کے برتنوں کا ڈھیر لگ جاتا وہاں ‘قلعی گر ایک ‘ایک برتن کو اٹھاتے بھٹی پر گرم کرتے ‘ان کو مختلف کیمکلزکے ذریعے سے صاف کرکے ان پر اس طریقے سے قلعی چڑھائی جاتی کہ برتن دوبارہ نیا ہوجاتا-قلعی گر پیتل اور تانبے کے گندے برتنوں میں نئی روح پھونک کر انہیںپھر سے نیا بنا دیتے یہ ان کا ہنر تھا ‘زمانوں کی گرد میں جہاں معاشرے کے کئی کردار گم ہوگئے قلعی گربھی ان میں شامل تھے قلعی کے بعد برتن میں پیدا ہونے والی چمک اسے نئے سے بھی زیادہ دیدہ زیب بنا دیتی مگر قلعی گر اپنی زندگی پر لگنے والے غربت اور مجبوریوں کے داغ اور دھبوں کو وہ کبھی صاف نہ کر پاتا” جدت“ آئی تو ”خریدو، استعمال کرو اور پھینک دو“ کے رجحان فروغ پایا بلکہ اس سے پہلے ”اسٹین لیس اسٹیل کے برتن ‘پیتل کے مقابلے میں آئے اس کے ...

Pakistan on the Brink of Collapse--(by:Mian Muhammad Nadeem) Group Editor www.urdupoint.com

Image
ہم اس دین کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں جو صفائی کو نصف ایمان قراردیتا ہے مگر روزمرہ کی زندگی ہو یا عیدین کے مواقع ہر طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں مساجد ہماری تربیت گاہیں تھیں لیکن مبنروں سے فرقہ بندی تو سکھائی جارہی ہے معاشرت نہیں عید الااضحی قریب ہے وفاقی دارالحکومت سمیت وطن عزیزکے چھوٹے بڑے شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہاتوں تک کئی ماہ تک ماحول بدبودار نہ رہے اور ہر جگہ سڑتی ہوئی اوجڑیوں اور الائشیوں کے انبار نہ ہوں تو ہماری عید قرباں مکمل نہیں ہوتی جس طرح ہر سال رمضان میں حکومتیں اور انتظامی مشنری ایسے بوکھلائی نظرآتی ہیں جیسے اچانک کوئی آفت ان پر آن پڑی ہو اسی طرح کی بوکھلاہٹ بکرا عید پر نظرآتی ہے -شہریوں کی بجائے حکومتوں اور انتظامی مشنری پر ذمہ داری اس لیے عائد ہوتی ہے کہ وسائل اور منصوبہ بندی ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور قوم کی تعلیم وتربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی پاکستان میں ہر طرف منصوبہ بندی کا فقدان ہے 75سالہ قومی زندگی میں ہماری پالیسی ”ڈنگ ٹپاﺅ“رہی ہے -جس دیوار پر صفائی نصف ایمان لکھا ہوتا ہے اور اس کے عین نیچے...

وزیر دفاع ”کس“ سے مخاطب تھے؟..... تحریر امجد عثمانی(سنیئرصحافی وکالم نگار)

Image
  کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ کسی صبح سویرے لاہور کے کسی چوک چوراہے پر جا کھڑا ہوں اور وہاں دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کی تلاش میں ”درماندہ مزدوروں“کے چہرے پڑھوں اور پھر ملک میں پھیلی الم ناک بھوک اور ننگ کا "چہرہ" لکھوں۔اقبال ساجد کا یہ شعر کسی ایسے ہی منظر کی عکاسی کرتا ہے: مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو قدرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو اچھا ہوا کہ وزیر دفاع جناب خواجہ آصف نے بھری مجلس میں یہ” نوحہ“کہہ دیا اور مجلس بھی ملک کی مجلس شوری انہوں نے حسب معمول قومی اسمبلی کے فلور پر ”دھواں دھار خطاب“کیا اور جوش خطابت میں کرپشن کی کئی کہانیاں کہہ ڈالیں اس دن وہ وزیر دفاع کے بجائے وزیر احتساب لگ رہے تھے-یہ بھی ہماری”مبینہ جمہوریت“کی ہی انفرادیت ہے کہ ہمارے” وزیر مشیر“ اپنے کام کے علاوہ سب کام ”خوب“کرتے ہیں مثال کے طور پر وزیر دفاع دفاعی امور کے علاوہ تمام قومی مسائل پر”لب کشائی“ کرتے ہیں وزیر خزانہ معاشی مسائل کے علاوہ ہر مسئلے کا حل”جیب“ میں لیے پھرتے ہیں-وزیر خارجہ”سیاحت“ کو سفارت سمجھتے ہیں کئی بار یہ خیال بھی آتا ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان میں”مبینہ جمہوری نظام“کے تحت وز...