تنہائیوں کے سفر....آخری حصہ (تحریر:میاں محمد ندیم) گروپ ایڈیٹراردوپوائنٹ ڈاٹ کوم



”تنہایوں کے سفر“ میں گفتگو جاپان سے شروع ہوتی مغرب تک گئی مگر پاکستان اور ہمسایہ ممالک پر بات نہیں ہوسکی انیس سو نوئے کی دہائی میں سیموئل پی ہنٹنگٹن کی کتاب ”کلیش آف سویلائزیشنز“نے بڑی شہرت پائی اگرچہ یہ کتاب سرد جنگ اور نیوورلڈ آڈر کا احاطہ کرتی ہے مگر سیموئل نے ”تہذیبوں کی جنگ“میں معاشی پہلو پر کھل کربات کی- جمی کارٹر کے عہد صدارت میں قومی سلامتی کونسل کے سربراہ رہنے والے سیموئل پی ہنٹنگٹن امریکا کے مختلف تھنک ٹینکس ‘مشاورتی کمیٹیوں اور معاشی اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے ان کی درجنوں کتب میں سے زیادہ تر سیاسی‘معاشی اورقومی سلامتی جیسے موضوعات پر ہیں -Clash of Civilizations میں کئی مضامین بھی شامل ہیں جو سیموئل نے اس سے متعلقہ موضوعات پر لکھے تھے‘ سیموئل نے معاشی طاقت کے مغرب سے مشرق کی جانب جھکاﺅ کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ مستقبل میں مشرق دنیا کا معاشی مرکز بنے گا اور شاید اسی کی پیش بندی کے طور پر امریکا نے مشرق کو عدم استحکام کا شکار رکھنے کے لیے مسلسل کوئی نہ کوئی محاذ خطے میں کھولے رکھا-امریکا نے چین سمیت مشرق کی ابھرتی طاقتوں اور ترقی پذیرممالک کے لیے ڈبلیوٹی او جیسی قبریں کھودیں مگر خود تو ان میں گر ا ہی اتحادی مغربی ممالک کو بھی لے ڈوبا‘روس کی بجائے اب چین کو حریف کے طور پر دیکھا جارہا تھا- انیس سو سترکی دہائی میں پاکستان کے ذریعے امریکا نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے کامیاب مہم جوئی کی مگر ہماری حکمران اشرافیہ کی شارٹ کٹ اور” نقد “پر یقین کامل کی وجہ سے وہ مفادات حاصل نہیں کیئے جاسکے جو دونوں ملکوں کے درمیان ثالث کا کردار اداکرکے کیئے جاسکتے تھے (اس سے پہلے اور بعد میں بھی بہت مواقع ملے مگر ہم دیرپا تعلقات کے ذریعے قومی وملکی مفاد کی بجائے نقد پر یقین رکھتے ہیں ) چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کی راہ ہموار کرنے کا خفیہ آپریشن مکمل ہوا تو رچرڈنکسن پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے چین کا دورہ کیا -یہ وہ دور تھا جب واشنگٹن ‘بیجنگ کو حریف کے کی بجائے حلیف بنانے کی خواہش رکھتا تھا انڈیا اور چین کو اپنے حلیف بناکر اپنے معاشی مفادات کا تحفظ چاہتا تھایہ دونوں ملک آبادی کے لحاظ سے بھی بڑی مارکیٹس تھیں ‘گلوبلائزیشن کے معاہدوں میں کھلی تجارت‘تجارتی قوانین میں رکاوٹوں کا خاتمہ وغیرہ شامل تھے-امریکا اگر چین کو ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھ رہا تھا تو بیجنگ بھی امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کو گاہک کے طور پر ہی دیکھ رہا تھا صدر نکسن کے دورے کے بعد لالچی امریکی سرمایہ کاروں نے منافع بڑھانے کے لیے چین میں اندھا دھند سرمایہ کاری شروع کردی ‘دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں اور کارپوریشنزنے چین کا رخ کیا جس کے نتیجے میں امریکا اور مغربی دنیا میں کارخانے بند ہونے لگے جس کا خمیازہ آج غربت ‘بیروزگاری کی صورت میں سامنے آرہا ہے -پالیسی سازابھی تک سمجھ نہیں پارہے کہ ان کے ساتھ ہوکیا رہا ہے واشنگٹن ساﺅتھ امریکا کے غریب ممالک میں ان کارخانوں کو منتقل کرکے سستی اشیاءاپنے شہریوں کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بدترین غربت وافلاس کا شکار ساﺅتھ امریکن ملکوں سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو بھی روک سکتا تھا مگر واشنگٹن میں کھربوں ڈالروں پر سانپ بنی بیٹھی کارپوریشنزکے سامنے بے بس تھا جنہیں سستی لبیر‘کم اخراجات اور بغیرکشی جھنجٹ کے اربوں ڈالر کے سالانہ منافع سے غرض تھی لہذا ساﺅتھ امریکا میں انفاسٹرکچر پر خرچ کرنے کی بجائے چین میں ملنے والی بے پناہ سہولیات امریکی اور مغربی دنیا کے سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پرکشش تھیں یہاں سے چینی”ڈریگن“کے عروج کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے صدر شی نے چین کو دنیا کی فیکٹری قراردیا تو کچھ غلط نہیں ہے اس میں-کوویڈ کی عالمی وباءکے دوران پوری دنیا کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ماسوائے چین کے اگرچہ بیجنگ کا دعوی ہے کہ اسے بھی مالی نقصان اٹھانا پڑا مگر وہ منافع میں تھوڑی بہت کمی تھی وباءکی وجہ سے سپلائی چین کا متاثرہونے سے مگر چند ماہ میں ہی چینی فیکٹریوں میں پیدوار دوگنا ہوگئی اور آج تک عالمی تجارت میں سپلائی چین کی رفتار میں آنے والی کمی کے ”گیپ“ کا فائدہ چین اٹھا رہا ہے اس دوران چین نے پاکستان سمیت چھوٹے ممالک کو قرضے بھی دینا شروع کردیئے یقینی طور پر یہ سودی قرضے تھے حکومت کے علاوہ چینی کمرشل بنک بھی میدان میں آگئے اگر ہم صرف اپنے ملک کی بات کریں توسال2023کے آغازمیں پاکستان کے ذمے مجموعی بیرونی قرضے کا حجم اس وقت 97 ارب ڈالر سے زیادہ تھا جس میں30ارب ڈالر کا چینی قرضہ بھی شامل ہے باقی قرض بین الاقوامی مالیاتی اداروں، مختلف ملکوں ، بیرون کمرشل بینکوں اور بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ سے حاصل کیا گیا-سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق قرضے میں پیرس کلب، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے علاوہ غیر ملکی کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جانے والا قرضہ شامل ہے پاکستان کے گزشتہ سات سالوں میں قرضہ لینے کے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو 2015 میں بیرونی قرضہ جو جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا وہ 2022 میں جی ڈی پی کا 40 فیصد ہو گیا جو ہمارے یہاں ہولناک مہنگائی کا سبب بنا -پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے میں جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، دوسرے ممالک اور کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے شامل ہیں تاہم حکومت پاکستان اور مرکزی بینک کی رپورٹس میں ’پیرس کلب‘ اور ’نان پرس کلب‘ ممالک سے لیے گئے قرضے ظاہر کیے جاتے ہیں اور ملکوں کا انفرادی طور پر نام نہیں دیا جاتا-دی چائنا انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جن پر چین کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے بیجنگ نے پاکستان کی مدد کی کوئی شک نہیں مگر اس کی عام شہریوں کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی؟چین ‘ترکی یا ہمارے عرب دوست ان کے مہنگے منصوبوں کو ہمیں قبول کرنا پڑا سال2024معاشی لحاظ سے انتہائی اہم سال ہے کہ اس دوران ہم نے50ارب ڈالر سے زیادہ کے قرض واپس کرنا ہیں جبکہ ہمارے پاس چند ہزار ارب ڈالر ذخائر ہیں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور اب نگران حکومت نے 2023کے اختتام تک جو قرض لیے ہیں ان کے اعدادوشمار سامنے نہیں آسکے بلکہ ہمارے ہاں کبھی بھی درست اعدادوشمار عوام کو پتہ نہیں چلتے یہ ہمیشہ”قومی راز“ہی رہتے ہیں -میگا پراجیکٹس دنیا میں بنائے جاتے ہیں مگر ان کا ڈھنڈورا جس طرح پاکستان میں پیٹا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی جان پرکنزکے مطابق ”معاشی تباہ کاروں“کا یہ سب سے خطرناک داﺅ ہے ‘جتنا بڑا پراجیکٹ اتنازیادہ قرض اور ہمارے ہاں اتنے ہی بڑے کک بیکس‘حال ہی بجلی ‘گیس وغیرو کی قیمتوں میں ہزاروں گنا اضافہ ”تھور“کے وہی درخت ہیں جنہیں نوے کی دہائی میں لگانا شروع کیا گیا اور اب وہ آکٹوپس کی طرح ہمیں جکڑے ہوئے ہیں ‘میٹرو‘اورنج لائن ‘ایکسپریس ویز جیسے منصوبوں کے بغیرہمارا گزرا ہوسکتا تھا ‘ساہیوال کول پراجیکٹ ‘بہاولپور میں سولرپارک سمیت سینکڑوں ایسے منصوبے ہیں جن میں قومی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات تھے‘آج ساہیوال کول پاور پراجیکٹ اور بہاولپور کا سولر پارک آئی پی پیزسے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں کیونکہ دو ارب ڈالر کے قریب کی تعمیراتی لاگت کے اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اس کے لیے کوئلہ برآمد کرنا پڑے گا‘قائد اعظم سولرپارک پر 587ملین ڈالر سے زیادہ خرچ آیا ‘تھر کول پاور پراجیکٹ پر اب تک کئی سو ملین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں ان منصوبوں سے عوام پر قرضوں کا مزید بوجھ بڑھا جبکہ”خواص“کے بیرون ممالک اکاﺅنٹس اور جائیدادوں میں اضافہ ہوا-چین اور ترکی کی کمپنیاں ہماری حکمران اشرافیہ کی ”ذہنیت“کے مطابق کام کرتی ہیں اسی لیے زیادہ ترمنصبوں میں ہمیں یہی کمپنیاں نظرآتی ہیں ‘سی پیک اور گودار کے بارے میں جو خواب دکھائے گئے وہ آج تک تعبیر نہیں پاسکے بلکہ عام شہریوں کے لیے ڈروانا خواب بن رہے ہیں کیونکہ ان پر اتنا بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ وہ خودکشیوں پر مجبور ہوجائیں موسم سرما جس طرح مسلسل بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے آنے والے موسم گرما میں پنکھے کی ہوا بھی عیاشی کے زمرے میں آئے گی -بندر ناچ رہے ہیں مداری ڈگڈی بجارہے ہیں ‘چھہترسالو ں میں عوام کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ اسے سچ بتایا جائے الٹا ہر اس آوازکو دبانے پر توانائیاں صرف کی گئیں جو ”مداریوں“سے سوال کی جرات کرئے‘ یہاں تو سانحہ سقوط ڈھاکہ کی اطلاع بھی عوام کو 24الفاظ پر مشتمل ایک ”ڈس انفارمیشن“کی صورت میں پی ٹی وی سے سنائی گئی -نیت نیک ہوتی اور اپنے اکاﺅنٹس اور جائیدادوں کی ہوس نہ ہوتی تو افغانستان اور ایران کے راستے پرانے سلک روٹ کو بحال کرکے ترقی کی ان منزلوں کو پاسکتے تھے جو قوموں کا خواب ہوتی ہے بدقسمتی سے ہم پرائی جنگوں کو اپنے گھر لانے میں لگے رہے یہ سوچے بغیر کہ یہ آگ ہمیں بھی جلائے گی اگر تقسیم کے فوری بعد نیک نیتی کے ساتھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور افغانستان و ایران کے راستے پرانے سلک روٹ پر توجہ دی جاتی تو ہمارا یورپ تک زمینی رابط قائم ہوتا ‘ہماری تجارت چین سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ ہوتی مگر بدقسمتی سے کرپشن کے عفریت نے ہمیں اس دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظرنہیں آتی-


Comments

Popular posts from this blog

Why is Pakistan the fifth most vulnerable country when it comes to climate change?----by Mian Muhammad Nadeem group editor urdupoint dot com

Climate Change and our Responsibilities. By: Mian Muhammad Nadeem, Editor www.urdupoint.com

تنہائیوں کے سفر (تحریر:میاں محمد ندیم) گروپ ایڈیٹراردوپوائنٹ ڈاٹ کوم