بھانڈے قلعی کرالو تحریر:میاں محمد ندیم
اسی کی دہائی کے آغازکے بہت سارے کردار ختم ہوگئے ہیں ہم آخری نسل تھے جس نے ”کپی ٹاکی“پر فلمیں ‘ریچھ کے تماشے‘گندم‘آٹا یا دیگر اناج دے کرقلفیاں کھائیں آج کی نسل ان سب کا تصور بھی نہیں کرسکتی‘پھر ایک آواز”بھانڈے قلعی کرالو“گونجتی تو ہلچل مچ جاتی “قلعی گر“محلے کے سب سے بڑے صحن والے گھر میں اپنی بھٹی لگاتے اور محلے بھر کے پیتل کے برتنوں کا ڈھیر لگ جاتا وہاں ‘قلعی گر ایک ‘ایک برتن کو اٹھاتے بھٹی پر گرم کرتے ‘ان کو مختلف کیمکلزکے ذریعے سے صاف کرکے ان پر اس طریقے سے قلعی چڑھائی جاتی کہ برتن دوبارہ نیا ہوجاتا-قلعی گر پیتل اور تانبے کے گندے برتنوں میں نئی روح پھونک کر انہیںپھر سے نیا بنا دیتے یہ ان کا ہنر تھا ‘زمانوں کی گرد میں جہاں معاشرے کے کئی کردار گم ہوگئے قلعی گربھی ان میں شامل تھے قلعی کے بعد برتن میں پیدا ہونے والی چمک اسے نئے سے بھی زیادہ دیدہ زیب بنا دیتی مگر قلعی گر اپنی زندگی پر لگنے والے غربت اور مجبوریوں کے داغ اور دھبوں کو وہ کبھی صاف نہ کر پاتا” جدت“ آئی تو ”خریدو، استعمال کرو اور پھینک دو“ کے رجحان فروغ پایا بلکہ اس سے پہلے ”اسٹین لیس اسٹیل کے برتن ‘پیتل کے مقابلے میں آئے اس کے بعد ”پلاسٹک“کے زہرنے تباہی مچانا شروع کردی ‘آج پلاسٹک کے ساتھ تھرموپول سمیت بہت سارے جان لیوا میٹریل کے برتن آگئے اور ہم انہیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ”سلوپوائزن“ہمارے بچوں کو مار رہا ہے مگر کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہیں-
انیس سو اسی کی دہائی کے آغازکا زمانہ وہ تھا جب کانوں میںبھانڈے قلعی کرا لو‘ کی آواز گلی محلوں کے لیے نئی نہیں تھی پاکستان کا شاہد ہی کوئی شہر، محلہ، گلی یا گھر اس صدا سے ناواقف ہو چھوٹی سی قلعی گری کی مشین اور چند اوزاروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی شیدا قلعی گر کسی نہ کسی روز، کہیں نہ کہیں آواز لگاتا تھا ’بھانڈے قلعی کرالو‘ اور گھروں کے کونوں کھدروں میں ڈھکے چھپے، کالے سیاہ، ڈینٹ پڑے، پیتل، تانبے اور لوہے کے ناکارہ برتن آناً فاناً گلی میں جمع ہو جاتے تھے ا قلعی گر چمتکار دکھاتا اور پل بھر میں چند پیسوں کے عوض یہی برتن چمکتے دمکتے، نوے نکور اور کارگر بن کر گھروں میں سج جاتے۔یہ معاشرے کا ایسا اہم کردار تھا کہ اس پر1977میں ریلیزہونے والی سپرہٹ فلم ”سسرال “بنی جس میں مہدی حسن جیسے بڑے گائیک کی آوازمیں ‘اس وقت کے مشہور ہیرو شاہد پر فلمائے گانے
بھانڈے قلعی کرالو۔۔۔
پرانے نوے بنا لو۔۔۔
آگیا ہاں شیدا قلعی گر۔۔۔
نے ایسی شہرت حاصل کی کہ ہر گلی ‘محلے یہ گیت زبان زدعام تھا‘مٹی کی ہانڈی میں پکنے والی دال اور ساگ کا ذائقہ دوبارہ نصیب نہیں ہوا کیونکہ ہم ”ترقی یافتہ“ ہوگئے ایک زمانے میں مٹی، پیتل اور صرف تانبے کے برتن استعمال کرنے رواج تھا آج پلاسٹک‘ اسٹیل، ایلومینئم، کانچ اور تھرموپول سے بنے برتنوں کے رواج نے تانبے اور جست سے بنے برتنوں کو ہماری زندگیوں سے نکال باہرکیا ہے اب تو رشتے بھی ”ڈسپوزیبل“ہوگئے ہیں”ترقی“کی قربان گاہ پر ہم نے روایات اور اقدار کو ہی نہیں بلکہ رشتوں کی گردنیں بھی اتارپھینکیں قلعی گر بیچارہ اربوں پتی سیٹھوں کے سامنے کیا مزاحمت کرتا‘اس کے لاشے پر سیٹھوں کی بڑی بڑی فیکٹریاں قائم ہوئیں‘پیتل کے برتن بنانے والوں کی اولادو ں نے پلاسٹک‘میلامائن‘کانچ‘لوہے اور اسٹیل کے امیزاج سے بنے برتنوں کی فیکٹریاں لگالیں‘جانتا ہوں جذبات میں اصل موضوع سے ہٹ رہا ہوں مجھے معاشرے کے اہم ترین کردار قلعی گر تک اس تحریر کو محدود رکھنا ہے مگر ہماری نسل کے دکھ ہی اتنے ہیں کہ ایک کو بیان کرنے بیٹھو تو کئی اور آن گھیرتے ہیںتو بات ہورہی تھی قلعی گر کی جو چولہے کی کالک سے آلودہ برتنوں کو قلعی کروا کے ان میں چمک پیدا کرتا تھا قَلعی گر سائیکلوں پر گلی، محلوں میں گھومتے تھے لوگوں کو اپنی ضرورت کے تحت ان پھیری والوں کا بے صبری سے انتظار کرتے جیسے دھوبی کپڑے دھوتا ہے اسی طرح قلعی گر برتن کو دھو کر نیا بنا دیتے برتن کو نمک، گندھگ اور کاسٹک جیسے مختلف تیزابوں کی مدد سے مانچتے، کالک اور زنگ کو صاف کرنے کے بعد نوشادر کے ساتھ برتن پر قلعی لگائی جاتی ، جو برتن کو چمکا کر بالکل نیا بنا دیتی ۔اس عمل کے لئے ایک چھوٹی سے بھٹی بھی لگائی جاتی ہے، جس سے دھاتوں اور پانی کو گرم کرنے کا کام لیا جاتا قلعی انسانی صحت کے لئے بہت مفید تھی جس میں چاندی کی آمیزیش ہوتی ہم نے جس طرح انسانی صحت پر بہت سارے دوسرے سمجھوتے کیئے ہیں اسی طرح ہم نے پلاسٹک جیسے زہرکو بھی ہنسی خوشی قبول کیا ہے جسمانی کمزوری کی ایک بڑی وجہ قلعی کے استعمال میں کمی بھی ہے کیونکہ چاندی کی آمیزیش سے تیار قلعی اور پیتل کے برتنوںمیں کھانا کھانے والے لوگوں کی صحت اچھی ہوتی ہے دور جدید میں قلعی کروانے کا عمل ختم ہو گیاا آج ہم برتن تو قلعی نہیں کرواتے لیکن اپنے ناکارہ اور فرسودہ خیالات کو قلعی کر کے نت نئے انداز میں پیش ضرور کرتے ہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کے جعلی کاموں کی” قلعی“ کھلنے میں دیر بھی نہیں لگتی ہمارے اذہان کو زنگ لگتا جارہا ہے لیکن پھر بھی ہم عملی طریقے پر تحقیق و جستجو کے ذریعے اپنے خیالات کو قلعی کروانے سے کترا رہے ہیں ترقی یافتہ ممالک تحقیق و جستجو میں اپنے دن رات ایک کر رہے ہیں، لیکن ہمارے نظام میں یہ عمل ناپید ہے۔ یہ تحقیق و جستجو کی لگن ہی ہے جس کے باعث انسانی زندگی ارتقاء کے مراحل طے کرتی چاند پر پہنچی اور اس سے آگے بڑھنے میں مصروف ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے ملک میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے، بس انھیں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ ان کے روشن اذہان قلعی کروانے کے عمل سے گزرتے رہیں اور اپنی قابلیت کا سکہ جماتے رہیں۔
Comments
Post a Comment